ایرانی صدر کی ہلاکت
دنیا بھر کے میڈیا پر خبر نشر ہوتی ہے “ایران نے اسرائیل پر حملہ کر دیا” اس خبر نے ساری دنیا میں بے چینی کی ایک لہر پیدا کر دی ہے خاص طور پر ان مسلمانوں کے لئے جو ایران کے عالمی سطح پر کردار سے لا علم ہیں ان کی نظر میں ایران تو اسلامی دنیا کا ہیرو بن گیا
اس کے برعکس اہل نظر و بصیرت اور عالمی حالات پر نگاہ رکھنے والوں نے برملا کہہ دیا کہ ایران نے یہ حملہ فلسطین کی حمائیت میں نہیں کیا بلکہ اپنے چہرے پر لگی بزدلی کی کالک کو دور کرنے کی ایک ناکام کوشش کی ہےذرائع کے مطابق اس حملے کی با ضابطہ اطلاع امریکہ اور اسرائیل دی گئی تھی اور علاقے کے دوسرے ممالک کو بھی بہانے سے مطلع کر دیا گیا تھا ۔ اب یہ خبر بھی میڈیا پر آچکی ہے کہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی کسی بڑے مالی نقصان کی اطلاع اب تک مل سکی ہے آپ اس حملے کی عوعیت کو خود جان سکتے ہیں
ایران کے اس حملے کے فوراً بعد یہ بیان دیا “ان کا انتقام پورا ہو گیا ہے اب وہ مزید حملے نہیں کرے گا” آخر ایران نے کس شے کا انتقام لیا تھا؟ یہ وہ سوال تھا جس نے کئی ذہنوں کو سوچنے پر مجبور کردیا اور ذرا سی تحقیق سے یہ پتا چلا کہ اس حملے سے چند دن پہلے شام میں ایران کے سفارت خانے کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں انیس ایرانی ہلاک ہوئے تھےمزید تحقیق پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ کاروائی اسرائیلی ایجنٹوں کی تھی جس کو شامی مجاہدین کے سر تھوپنے کی بڑی کوشش کی جا رہی تھی لیکن غیر جانبدارذرائع یہ بات واضح کردی تھی کہ اسرائیل نے اس شک کی بنیاد پر حملہ کیا تھا کہ شاید اسرائیل مخالف اس سفارت خانے کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔اس واقعہ پر ساری دنیا میں ایران کی جگ ہنسائی ہو رہی تھی اور ایران کو عالمی سطح پر ڈنگیں مارنے کی وجہ سے خفت کا سامنا کر پڑھ رہا تھا اس ذلت کو مٹانے کے لئے اسرائیل کو پیشگی اطلاع دیکر ایک نورا کشتی جیسا حملہ کرکے ہیرو بننے کی ناکام کوشش کی گئی ۔
ایران کا کردار شروع ہی سے مسلمانوں کے ساتھ منافقانہ رہا ہے اور ایران نے ہر موقع پر مسلمانوں کے مفادات کے خلاف کام کیا ہے لیکن آگ کے پجاری عیار ایرانی اس طرح سے خود کو پیش کرتے ہیں کہ جیسے اسلام کے اصل محافظ ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ بہت مخلص ہیں لیکن ان کا اصل کردار اس کے بر عکس ہے پاکستان میں دہشت گردی ہو یا ایران میں مجاہدین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر کے ان کو آپس میں لڑوانا ہو یہ کارنامے ایران کے ہی حصہ میں آتے ہیں اسی طرح ایران نے لبنان اور شام کو تباہ کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے مگر یہ اپنی تدبیر کرتا ہے پر اللہ کی تدبیر اور مجاہدین کے سچے جذبوں کی وجہ سے ناکامی ہمیشہ ایران کو مقدر بنتی ہے۔
ایران کے شیعہ آج بھی خود کو ساسانی سلطنت وابسطہ سمجھتے ہیں جس کو حضرت عمر نے اپنے دورِ حکومت میں شکست سے دوچار کرکے وہاں پر اسلام کا نظام عدل قائم کیا تھایہی وجہ ہے کہ شیعہ آج بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بغض و عداوت کو اپنے سینوں میں لئے پھرتے ہیں اور اس کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فتوحات کے اس سلسلے کو بڑھا کر یہودی سازشوں کو پامال کر دیا تھا اس لئے شیعہ جو کہ مجوس اور یہود کے بنیادی فلسفوں پر وجود میں آیا تھا اسکو امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی خاص عداوت ہے۔
اصل میں ایرانی اپنی کھوئی ہوئی نوشیروانی سلطنت کی جھوٹی تلاش میں ہیں دراصل وہ گمراہیوں اور ذلتوں میں گھرے ہوئے ہیں اور بڑے احمقانہ انداز میں خود کو اسلام کے لبادے میں اوڑھے ہوئے ہیں اسی طرح یہودی بھی یہودی بھی جن کو اللہ نے بڑی عزت و مرتبہ دیا تھا جو انہوں نے اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے کھو دیا تھاوہ اپنی پرانی اہمیت کو حاصل کرنے کے جنون میں مبتلا ہو کر انسانیت کے درجے ست گر کر دجال کارندے بنکر دنیا پر قبضہ کرنے کے خواہش مند ہیں اور آئے دن وہ اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
اس موضوع پر اہل قلم نے بہت لکھا ہے اور خوب لکھا ہےآپ اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ لیکن ایران اپنی اس مکاری کے باوجود دھوکاکھا گئے اس حملے کے بعد اسرائیل نے دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے ایرانی صدر جس کو بھیڑیا اور تہران کا قصاب کہا جاتا تھااس کو ٹارگٹ کیا اور پھر ایک کاروائی کرکے اس کو ہلاک کروا دیا ۔چونکہ یہ کاروائی اسرائیل کی منصوبہ بندی لہذا اس خبر کو سب سے پہلے اسرائیلی میڈیا نے نشر کیا ہے۔
ایران کے صدرابراہیم رئیسی کو بھیڑیا اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ شخص مظلوم مسلمانوں کے لئے ایک بھیڑیے سے کم نہیں تھا اس کا تعلق ایران کی اس خفیہ ایجنسی سے تھا جو مسلمانوں کو قتل کروا تی تھی اور شام کے ہنگاموں میں اس یہ ڈیتھ سکواڈ کا سربراہ تھا اس نے کئی اہم مسلمان ہستیوں کو ٹارگٹ بنایا اور ان کی شہادت کا ذمہ دار اسی ایرانی صدر کو ٹھہرایا جاتا ہے اسی طرح شام میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں رئیسی کا اہم کردار رہا ہےایران میں بھی اس نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ اپنے مخالفین کا جینا حرام کر رکھا تھا اور پھر یہ چہرے پے منافقانہ مسکراہٹ سجائے پاکستان کے دورے پر آگیا
پاکستان کے شیعہ طبقے نے اس کی خوب پذیرائی کی اور اس کو طرح طرح کے القابات سے نوازہ انہی شیعوں کے زیرِ اثر پاکستانی میڈیا بھی ایرانی صدر کی راگنی گاتا رہا تھااس دورے کا کوئی واضح مقصد نہیں تھا اور نہ ہی دورے کے اختتام پر کوئی ایسا مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا کہ اس سے اس دورے کی کوئی اہمیت واضح ہو۔
لگتا ہے صدرِ ایران کا یہ دورا دراصل پاکستان کے شیعوں کی حوصلہ افزائی اور اور ان کو خوش کرنے کے لئے تھابحرحال پاکستان کے حکمران ایک قاتل بھیڑے کو تحفظ دینے کی خاطر لاہور کے عوام کو رولتے اور ذلیل کرتے رہے تھےلیکن میرے اللہ نے اس قاتل بھیڑیے کی پکڑ کی اور وہ اپنے دشمن نما دوست کے ہاتھوں کیفر کردار کو پہنچا ۔ یاد رکھیں کوئی کیسا ہی ظالم اور منافق کیوں نہ ہو وہ انسانوں کو تو دھوکا دے سکتاہے لیکن اللہ کو نہیں کیونکہ اللہ کی تدبیر سب سے بہتر ہے۔
احباب یہ خیال بھی کرسکتے ہیں کہ میں نے شاید صرف مخالفت میں یہ مضمون لکھ دیا ہے ایسا نہیں ہے رئیسی کے بارے میں دنیا بھر کے لوگوں نے لکھا ہے ذیل میں بی بی سی کی رپورٹ کے کچھ اقتسابات دیئے جا رہے ہیں تاکہ آپ ان سے بھی آگاہ ہو سکیں
(رئیسی جو ایک سخت گیر عالم کی حیثیت سے معروف ہیں، جون 2021 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہوئے تھے اور انھیں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔بی بی سی رپورٹ)
(اس سے قبل وہ ایران کی عدلیہ کے سربراہ تھے اور انتہائی قدامت پسند سیاسی خیالات رکھتے ہیں۔ بہت سے ایرانیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے 1980 کی دہائی میں سیاسی قیدیوں کی بڑے پیمانے پر پھانسیوں میں اُن کے مبینہ کردار کا ذکر کیا ہے۔
بی بی سی رپورٹ)
(رئیسی جب تہران میں ڈپٹی پراسیکیوٹر بنے اس وقت وہ صرف 25 سال کے تھے۔
اس عہدے پر رہتے ہوئے انھوں نے ان چار ججوں میں سے ایک کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جو 1988 میں قائم اُن خفیہ ٹربیونلز کا حصہ تھے جو کہ ’ڈیتھ کمیٹی‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔بی بی سی رپورٹ)
(ٹربیونل نے مبینہ طور پر ایسے ہزاروں قیدیوں پر ان کی سیاسی سرگرمیوں کے باعث دوبارہ مقدمات قائم کیے جو پہلے ہی مقید تھے اور سزائیں بھگت رہے تھے۔ ان قیدیوں میں زیادہ تر بائیں بازو کے اپوزیشن گروپ مجاہدین خلق (MEK) کے ممبر تھے، جنھیں پیپلز مجاہدین آرگنائزیشن آف ایران (PMOI) بھی کہا جاتا ہے۔
جن لوگوں کو ٹریبونل نے سزائے موت دی ان کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے، لیکن انسانی حقوق کے گروپوں کا دعویٰ ہے کہ تقریباً پانچ ہزار مردوں اور عورتوں کو پھانسیاں دی گئیں اور ان لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا جو انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے رہنما اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ موت کی سزائیں دی گئیں لیکن وہ تفصیلات اور انفرادی مقدمات کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کرتے۔
رئیسی بارہا بڑے پیمانے پر سزائے موت دینے کے معاملے میں اپنے کردار سے انکار کر چکے ہیں۔ لیکن انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ سزائیں سابق رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کے فتوے کی وجہ سے جائز تھیں۔ ایک رپورٹ)
(جب ابراہیم رئیسی نے 2021 کے صدارتی انتخابات کے لیے اپنے امیدوار ہونے کا اعلان کیا تو ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ ’ملک کے مجلس عاملہ میں تبدیلیاں لانے اور غربت، بدعنوانی، بدسلوکی اور امتیازی سلوک کے خلاف اقدامات کریں گے۔‘
تاہم کئی نمایاں اعتدال پسند اور اصلاح پسند امیدواروں کو سخت گیر گارڈین کونسل کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کی وجہ سے الیکشن پس منظر میں چلے گئے۔
مخالفین اور کچھ اصلاح پسندوں نے رائے دہندگان پر زور دیا کہ وہ انتخاب کا بائیکاٹ کریں، ان کی شکایت تھی کہ ساز باز کر کے رئیسی کو کسی کڑے مقابلے سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
رئیسی نے پہلے مرحلے میں 62 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے ایک شاندار فتح حاصل کی۔ تاہم ٹرن آؤٹ صرف 49 فیصد سے کم تھا جو 1979 کے انقلاب کے بعد صدارتی انتخابات کے لیے ریکارڈ کم ترین شرح تھی۔بی بی سی)
International