Zamir Education & Training

علامہ اقبالعلامہ محمد اقبال کا فلسفہ تعلیم

علامہ محمد اقبال تعلیم کو روح کی بیداری کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور تربیت انسان میں عشق و جنون کی وہ کیفیت پیدا کرتی ہےجسسے انسان کو صرف حق کی تلاش کا شوق پیدا ہو جاتا ہے اور حق کی راہ پر چلتے ہوئے اتنی کامیابیاں سمیٹ لیتا ہے کہ ہر کامیابی راہ کا سنگِ میل بن جاتی ہے

ایک ہدف کو حاصل کر لینے کے بعد انسان کے اندر کامیابی کے حصول کا ذوق وشوق اور بڑھ جاتا ہے اور پھر اقبال کے مطابق

“آسمانوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں “

یہی وہ جہان ہو تے ہیں کہ ایک کامیاب شخص جن کو سر کرنے کو اپنا اگلا ہدف بنا کر اپنی ساری صلاحیتوں اور قوتوں کو استعمال کرکے کامیابی کے اعلیٰ ترین درجوں کی جانب اپنا سفر مسلسل جاری رکھتا ہےاور انسان” پلٹنا جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹنے “سے آگے بڑھ کر آسمانوں کی ایک کے بعد ایک تسخیر کے لئے پر عزم ہو جاتاہے اور لہو گرم رکھنے کا بہانہ دراصل اس کی پھرتی، تیزی اور مقاصد کے حصول کی خاطر اس کا کارآمد ہتھیار بن جاتا ہے

علامہ اقبال تعلیم کو انسان کی با شعور ذہنی ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور یہ کامیابی کی راہوں کی طرف راہنمائی کرتی ہے تعلیم انسان کو ایک باوقار ، ایک منظم اور عمل پر آمادہ شخصیت عطا کرتی ہے  اور تربیت اس کے اندر اندازِ سفر کی خوبی پیدا کرتی ہے تربیت انسان کو ہمت دیتی ہے انسان کو پرجوش کرتی ہے اور اس کے اندر کامیابی حاصل کرنے کا ایک جنون پیدا کر دیتی ہے تربیت روح  کوطاقت  اورذہن کو جستجوعطا کرتی ہے اور انسان کو ہر آن مضطرب رکھتی ہے کہ وہ بہتر سے بہترین کی جانب ہمیشہ اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔

علامہ محمد اقبال کے دور میں دو طرح کے نظام تعلیم موجود تھے ایک قدیم مذہبی مدرسوں اور خانقاہوں کا نظام تھا جس  پر غاصب انگریز نے بار بار کاری ضربیں لگا کر اگرچہ اس کو تباہ کر دیا تھا لیکن پھر بھی اللہ کے باہمت بندے اسکو کسی نہ کسی طرح چلا رہے تھے ۔ دوسری طرف انگریز کا اپنا ایک تعلیمی نظام تھا جس کا بڑا مقصد اپنی حکومت کو چلانے کے لئے تعلیم یافتہ افرادی قوت کا مہیا کرنا تھا اس نظام کا تعلق اور ہدف روزی کا حصول تھا اس لئے چند افراد کے علاوہ اس نظام تعلیم سے فیض یاب ہونے والوں میں اکثر نہ صرف انگریز کے غلام اور نوکر بنے بلکہ انہوں حصول دولت کے لئے وہ کچھ کر ڈالا جس کو لکھتے  ہوئے قلم بھی شرما جاتا ہے۔

علامہ محمد اقبال دونوں نظاموں سے نالاں تھے وہ مغربی طرزِ تعلیم کی مادیت پرستی اور اس کے مغربی معاشرے پر بد ترین اثرات کو وہ جان گئے تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنے اشعار اور مضامین میں کھل کر کیا وہ محفلوں میں بھی انگریزی نظام تعلیم پر تنقید کرتے تھےلیکن جس اذیت سے وہ مذیبی دینی مدرسوں اور خانکاہوں کے منجمند اور بے روح طریقہ تعلیم کی خامیاں بیان کرتے ہیں اس نے عام مسلمانوں کو بھی مدارس کے اس نظام تعلیم کے اس نقص سے آگاہ کر دیا تھا۔

اقبال مدارس کے خلاف نہیں تھے وہ علماء کی بڑی عزت کرتے تھے اور مسلمان معاشرے کے احیاہ کے لئے ان کی کاوشوں کو سراہتے تھے ۔ طرزِ تعلیم کے خلاف ان کی اٹھائی گئی آواز بڑی کار آمد ثابت ہوئی تھی جس سے مدارس کے نظام تعلیم میں کافی بڑی تبدیلیاں لائی گئیں تھیں۔

اس طرز تعلیم پر تنقید ان کی اپنی قوم سے محبت کی بنیاد پر تھی وہ اسلام کی حقیقی روح کو طلبہ میں منتقل کرنے کا کہتے تھے وہ تقلید سے ہٹ کر تحقیق کی بات کرتے تھےوہ طلبہ کو آرام پسندی اور پر آسائش انداز ذندگی کی بجائے سخت کوشی، سادگی،آزادی، بے باکی، راست بازی، نڈرپن، بہادری،سچ اور حق کی علمبرداری والی ذندگی کو اختیار کریں۔وہ اسلام کی روح کو سمجھیں جو ان کو ساری دنیا کی راہنمائی کا درس دیتا ہے وہ اہل مدارس کو کہتے تھے کہ آپ طلبہ کو مساجد میں اذان اور نماز تک محدود نہ کریں بلکہ ان کو دنیا پر حکومت کرنے کے لئے تیار کریں یہی اسلام کی روح ہے کہ دنیا پر اسلامی نظام حکومت قائم ہو الہامی نظام کے تحت دنیا میں عدل و انصاف کی حکمرانی ہو

اقبال چاہتے تھے کہ اہل مدارس بھی اسی طرح طلبہ کی تربیت کریں جس طرح نبی اقدس ﷺ نے صحابہ کی تربیت فرمائی تھی کہ انہوں نے اسلام کو دوسروں پر نافذ کرنے سے پہلے اپنے جسم و روح پر نافذ کیا تھامدارس کا اصل کام کردار کی تیاری ہے میدان عمل میں اترنے کے لئے ایسے افراد کو تیار کرنا مدارس کی ذمہ داری ہے جو عالی ہمت ہوں کی نگاہ بلند ہو جو راست باز ہوں جس کے ارادوے اتنے پختہ ہوں کہ اللہ کی تقدیر بھی ان کے تابع ہو جائے۔ ایسے نوجون کی جوانی گناہ سے آلودہ نہ ہو جو انسانیت کی عزت کرنا جانتے ہوں جو انصاف کے خوگر ہوں جو بہادری کی اعلیٰ مثال ہوں جو تکبر سے عاری ہوں جو جاہ وحشمت کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوں جن کے دل صرف اللہ کی رضا کے لئے دھڑکتے ہوں۔

علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں جابجا اپنی اسی خواہش کا اظہار کیا ہے

عمومی طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید اقبال “ملا” کے خلاف تھے جو کہ بالکل غلط بات ہے جو پھیلائی گئی ہےوہ بے عمل بے کردار اور پیٹ کے پجاری  ملا  کو راہ راست پر لانے کے لئے اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ایسے لوگ ہر دور میں قابل مذمت رہے ہیں جنہوں نے مذہبی لبادہ اوڑھ کر مال و زر اکٹھا کیا اور دوسرے علمائے دین کو بد نام کیا ور نہ اقبال تو “ملا” کی شان بیان کرتے ہوئے افغانستان کے تناظر میں کہتے ہیں

“افغانوں کی غیرت ملی کا ہے علاج
“ملا” کو ان کے کوہ ودمن سے نکال دو

علامہ اقبال  باعمل ،باکردار،راست باز،بے باک، نڈر اور ستاروں پر کمند ڈلنے والے مولوی کے عاشق و مداح ہیں وہ تو نوجوانوں کو ایسے ہی اللہ والے “مولوی ”  اور “ملا” بننے پر اکساتے ہیں جو ستاروں سے آگے قدم بڑھانے کی سوچ رکھتے ہیںوہ بار بار کہتے ان شاہینوں کو خاک بازی کا سبق نہ دو بلکہ ان کے مطابق

سبق پڑھ پھر صداقت کا شجاعت کا

لیاجائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا

علامہ اقبال ایک ایسے نظام تعلیم کی خواہش رکھتے ہیں جو قدیم و جدید کا امتزاج ہوجو قرآن کے بار بار کے تقاضے  “زمیں و آسمان پر غور کرو” اور اس کائنات میں سورج چاند ستاروں کی نقل و حرکت پر نگاہ ڈالوکائنات کی الہڑ قوتوں کو تسخیر کرکے ان کو انسانیت کی فلاح وبہبود کےاستعمال میں لاؤ کیونکہ صرف مسلمان ہی ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے اور وہ ہر اس کام سے بچتا ہے جو انسانیت کے لئے نقصان دہ ہوجب تحقیق و ایجادات اس کے ہاتھ سے ہورہی ہوں گی تو پھر انسانیت کانگو،ایڈز، کرونا اور بہت سارے ایسے انسانیت سوز کاموں سے محفوظ رہے گی جس کا وہ شکار ہوتی چلی آرہی ہے۔

غیر مسلموں نے اگر چہ بہت تحقیق کی ہے اور انسانوں کے فائدوں کے لئے بہت کچھ ایجاد کیا ہے لیکن ان کی بنائی گئی ہر شے کے پیچھے چھپے ہوئے ابلیسی اور دجالی مقاصد نے آکر کار ان ایجادات کو انسانوں کے لئے ایک عذاب بنا کر رکھ دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کی حکومت کو مسلم نوجوانوں کے ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں انہوں نے نوجوانوں کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا تھا

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھي کيا تو نے

وہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

وہ تعلیم کا مرکزی مقصد تسخیر کائنات کو سمجھتے تھے اور اس کے لئے حکومت کو مسلمانوں کے ہاتھ میں ہونا ضروری ہے کیونکہ دوسروں کے شیطان کے شکنجے میں آنے کے امکانات بہت ذیادہ ہیںاس لئے وہکہتے ہیں کہ تعلیم کا مقصد روزی کمانا نہیں ہے بلکہ دنیا پر اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے تعلیم تربیت کی ضرورت ہے ان کی یہ خوہش ہے کہ مدرسے سے نکلنے والا ہر بچہ یہ خواہش لیکر نکلے کہ اعلائے کلمۃ اللہ کے کام کرنا ہے اور یہی اس کی ذندگی کا مقصد ہےیہ معلمیں کا کام ہے کہ بچوں میں ابوبکر جیسی جانثاری، عمر جیسی بے باکی ، عثمان جیسی حیا اور سخاوت ، علی جیسی بہادری ابو عبیدہ جیسی امانت اور ذمہ داری، خالد جیسی مہارت ِحرب، امیر معاویہ جیسی سیاست و مدبریاور جملہ صحابہ جیسے اوصاف پیداکریں

یہ نوجوان وہ اذان دیں زمانے جو سنائیں جن کو سن کے وجود شبستان میں لرزا کر رکھ دیں اور ظلمت کے ان اندھیروں سے اسلامی حکومت کا وہ روشن سورج طلوع ہو جون ظلم کو مٹا دے جو انصاف کے اجالے ہر سو بکھیر دےانسانوں کو آزادی کا پیغام سنانا مسلمان کا فرض ہے اور مدارس نوجوانوں کو اس کے لئے تیار کریں ان کی تربیت کریں کہ وہ باعمل  باکردار مسلمان بنیں کہ ان کو دیکھ کر لوگ پکار اٹھیں کہ یہ ہیں محمدی  یہ ہیں اللہ کے بندے اور مسلمان ان پر فخر کر سکیں اور وہ مسلم و غیر مسلم سب کے لئے انصاف کے روشن منار بن سکیں۔

Leave A Reply